سالگرہ

سو آج سلسلۂ روزوشب وہیں پہنچا

جہاں سے کربِ مسلسل کی ابتدا ہوئی تھی

اُسی مقام پہ آ نکلا ہے پھر سے جادۂ وقت

جہاں حیات ترے غم سے آشنا ہوئی تھی

یہی وہ موڑ تھا جس پر جنوں بنا مرا دوست

اسی پڑاؤ پہ مجھ سے خوشی خفا ہوئی تھی

بفیضِ گردشِ دوراں ہوا جو حال ہوا

مگر یہ سوچ کے دل کو بہت ملال ہوا

کہ تُجھ سے بچھڑے ہوئے آج ایک سال ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]