سامنے آ سکے نہ جو بزم کو جگمگائے کیوں

رخ پہ نقاب ڈال کر جلوۂ رخ دکھائے کیوں

خار کی ہر چبھن پہ اب کرتے ہیں ہائے ہائے کیوں

کس نے کہا تھا آپ سے سیرِ چمن کو آئے کیوں

پالے جو اتنی آرزو کھائے بھی زخمِ آرزو

دل کی ہر ایک آرزو آدمی کی بر آئے کیوں

عشق کیا، کیا کرے جیسا کیا ہے خود بھرے

دل میں لگی ہے آگ جو آنکھ اسے بجھائے کیوں

عہدِ الست کو نبھا پہلو تہی نہ کر نظرؔ

عہد جو کر لے آدمی اس کو نہ پھر نبھائے کیوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]