ستارہ بن کے رہوں بے کنار ہو جاؤں

جو تو ملے تو اندھیروں کے پار ہو جاؤں

تبسموں کے اجالے شفاعتوں کے حرم

مجھے بُلا کہ میں تجھ پر نثار ہو جاؤں

بدن کا نور بھی تو ذات کا شعور بھی تو

تجھے نہ یاد کروں تو غبار ہو جاؤں

وہ انقلاب جسے تیری زندگی نے لکھا

میں پٰڑھ سکوں تو گلِ نو بہار ہو جاؤں

میں ایسی خاک کہ خوشبو کی پیاس ہے مجھ کو

خدا کرے میں تری رہ گزار ہو جاؤں

میں اپنے عہد کا صحرا ہوں مجھ کو حسرت ہے

ترے حضور گروں آبشار ہو جاؤں

وہ ایک عکس مری دھڑکنوں میں اترے تو

میں اپنے آپ میں خود بے شمار ہو جاؤں

ترے طلب میں چلوں اور خود کو گم کر دوں

میں چاہتا ہوں کہ بے اختیار ہو جاؤں

مری طلب کے مصوّر مجھے وہ صورت دے

کہ دھوپ میں شجرِ سایہ دار ہو جاؤں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]