ستارہ بن کے رہوں بے کنار ہو جاؤں
جو تو ملے تو اندھیروں کے پار ہو جاؤں
تبسموں کے اجالے شفاعتوں کے حرم
مجھے بُلا کہ میں تجھ پر نثار ہو جاؤں
بدن کا نور بھی تو ذات کا شعور بھی تو
تجھے نہ یاد کروں تو غبار ہو جاؤں
وہ انقلاب جسے تیری زندگی نے لکھا
میں پٰڑھ سکوں تو گلِ نو بہار ہو جاؤں
میں ایسی خاک کہ خوشبو کی پیاس ہے مجھ کو
خدا کرے میں تری رہ گزار ہو جاؤں
میں اپنے عہد کا صحرا ہوں مجھ کو حسرت ہے
ترے حضور گروں آبشار ہو جاؤں
وہ ایک عکس مری دھڑکنوں میں اترے تو
میں اپنے آپ میں خود بے شمار ہو جاؤں
ترے طلب میں چلوں اور خود کو گم کر دوں
میں چاہتا ہوں کہ بے اختیار ہو جاؤں
مری طلب کے مصوّر مجھے وہ صورت دے
کہ دھوپ میں شجرِ سایہ دار ہو جاؤں