ستم کی خو نہیں تم میں تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

نہ مطلب چھیڑ ہو دل سے تو آخر دل ستاں کیوں ہو

وہ تجھ سے سرگراں کیوں ہو نصیبِ دشمناں کیوں ہو

ہمیشہ خوش گمانی چاہیے تو بد گماں کیوں ہو

نہیں کہنے کی عادت جس کو پڑ جائے تو ہاں کیوں ہو

سمجھ لے آدمی فطرت تو پھر دل پر گراں کیوں ہو

نہ ہو جس کو دماغِ چشمکِ برقِ تپاں ہمدم

سرِ شاخِ چمن اس کو مذاقِ آشیاں کیوں ہو

بنا ہے سنگِ میل اس راہ کا وہ رہ نوردوں کو

جو راہِ عشق میں کام آئے بے نام و نشاں کیوں ہو

نہ لوں گا اپنے سر الزامِ بیش و کم نہیں لوں گا

بتانِ داستانِ غیر کو میری زباں کیوں ہو

ہماری آہِ دل پہنچی سرِ عرشِ بریں جا کر

ہماری راہ میں حائل فرازِ آسماں کیوں ہو

جو پیاسا ہو کنویں کے پاس جائے چل کے وہ خود ہی

نظرؔ جوئے رواں کو جستجوئے تشنگاں کیوں ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]