سجا رہا ہے جو اب دل کے آئنے میں مجھے

وہ چھوڑ جائے گا اک روز راستے میں مجھے

بھلا کے اس کو میں سب کچھ ہی بھول بیٹھا تھا

سو اُس کو لانا پڑا پھر سے حافظے میں مجھے

طلسمِ شب میں گھلی جب حسیں بدن کی مہک

جدا لگا تھا ترا لمس ذائقے میں مجھے

تو کیا ثبوت نہیں ہے چراغ ہونے کا

وہ شخص روز جلاتا ہے طاقچے میں مجھے

عجب خمار بدن کی حدوں میں اترا ، جب

وہ لڑکی شعر سناتی رہی مزے میں مجھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]