سجا کے شبنمی آنسو گلاب چہرے پر

کہانی لکھ گیا کوئی کتاب چہرے پر

نظر سے اٹھتا ہے برباد جنتوں کا دھواں

سلگ رہے ہیں ہزاروں عذاب چہرے پر

نگاہیں ساتھ نہیں دیتیں شوخیِ لب کا

جھلک رہی ہے حقیقت سراب چہرے پر

کہانیاں پسِ پردہ ہزار ہوتی ہیں

طمانیت کا اگر ہو نقاب چہرے پر

مرے مزاج کا رد عمل نہیں شکنیں

رقم ہے عمر رواں کا حساب چہرے پر

ہمیں تو آیا نہ لوگوں سے گفتگو کرنا

سوال دل میں رہے اور جواب چہرے پر

دلوں میں جھانکنا کر دے نہ آپ کو بھی دکھی

نگاہیں رکھئے بس اپنی جناب چہرے پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]