سخت بے چینی کا عالم بھی مکمل چین بھی

مرحلے ہیں چند ہجر و وصل کے ما بین بھی

نام لے لے کر بُلاتے جسم کی گہرائیاں

دائرہ در دائرہ ، مخروط بھی ، قوسین بھی

”قاف“ قامت کی قیامت ، ”شین“ شوخی شعر کی

عشق کی تکمیل کو عریاں بدن کا ”عین“ بھی

مرتعش لب تو چلو ہونٹوں سے ڈھانپے جا چکے

داستاں کہتے ہیں لیکن نیم وا دو نین بھی

وصل کے دن نے تو سینکی دھوپ روشن جسم کی

تیرگی کشکول کر کے ملتجی ہے رین بھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]