سخن کے خار زار کو حسِیں گُلاب مل گئے

درِ رسول سے حروفِ مستطاب مل گئے

مَیں پہلی بار کے سفر میں، گو رہینِ عرض تھا

بُلاوا آگیا تو اذن بے حساب مل گئے

شفیعِ مذنبیں نے مجھ پہ کیا عجب کرم کیا

گناہ ساتھ لایا تھا مگر ثواب مل گئے

سوادِ شامِ کرب میں طمانیت کا دن کھِلا

ازل کے ہجر زاد کو عطا کے خواب مل گئے

کہاں مجال تھی سخن کو مدحِ حُسنِ تام کی

برائے شعرِ نعت، حرف لاجواب مل گئے

اُٹھا کے سنگریزے لایا تھا مَیں دشتِ ناز سے

گماں نہیں یقین ہے کہ ماہتاب مل گئے

میانِ حشر منفعل تھے اولیں سوال پر

حضور آگئے تو سب کے سب جواب مل گئے

حضور، فاطمہ، علی، حسن، حُسین پنج تن

نسَب کو ناز ہے کہ کیسے انتساب مل گئے

یہاں وہاں وہ ماورائے خوف و حزن ہی رہے

جنہیں غلامیٔ رسول کے ذہاب مل گئے

گلے میں طوق ہی رہا ہے عجز کا، نیاز کا

کتابِ زندگی کو کیا حَسین باب مل گئے

تڑپ کے ساری حاجتوں نے پڑھ لیا درود جب

دُعا کے حرفِ عجز کو عطا مآب مل گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]