سرحدِ شہر قناعت سے نکالے ہوئے لوگ

کیا بتائیں تمہیں کس کس کے حوالے ہوئے لوگ

اپنی قیمت پہ خود اک روز پشیماں ہوں گے

سکّۂ وقت کی ٹکسال میں ڈھالے ہوئے لوگ

آئینوں سے بھی نہ پہچانے گئے کچھ چہرے

آتشِ زر میں جلے ایسے کہ کالے ہوئے لوگ

کب سے ہے میرے تعاقب میں دہن کھولے ہوئے

ایک عفریت شکم جس کے نوالے ہوئے لوگ

تم سے بچھڑے ہیں تو ہر موڑ پہ ٹکراتے ہیں

سنگِ دشنام کے مانند اُچھالے ہوئے لوگ

راحت سایہ میں بیٹھیں گے تو بجھ جائیں گے

ہم کڑی دھوپ میں سورج کے اُجالے ہوئے لوگ

اے مرے شہر تمنا تری سرحد سے پرے

جی رہے ہیں تری نسبت کو سنبھالے ہوئے لوگ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]