سرشار عشق میں نہ طلب گار تخت ہے

دل اپنی مفلسی کی ہواؤں میں مست ہے

تن جھڑتا جا رہا ہے کسی دکھ سے اسطرح

جیسے ہوائے تند میں سوکھا درخت ہے

ہر تان پر رگوں میں لہو ہو رہا ہے خشک

احساس کے نواح میں وہ سوز ہست ہے

آنکھیں بجھی چراغ بجھے خواب بھی بجھے

ہے کوئی جو ہماری طرح تیرہ بخت ہے

ہو جائے کاش مجھ سے غزل یہ تمام شد

اک شعر ہی لکھا ہے جگر لخت لخت ہے

دل پر اتر رہی ہیں قناعت کی آیتیں

اور آنکھ میں ہوس کا نیا بندو بست ہے

اک شخص کی وفا میں جیے چار دن فقیہہ

ورنہ یہ زندگی کا سفر ایک جست ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]