سرکارِ دو عالم کے رُخ پر انوار کا عالم کیا ہو گا

جب زُلف کا ذکر ہے قرآں میں رخسار کا عالم کیا ہو گا

محبوب خدا کے جلوؤں سے ایمان کی آنکھیں روشن ہیں

بے دیکھے ہی جب یہ عالم ہے دیدار کا عالم کیا ہو گا

جب ان کے گدا بھر دیتے ہیں شاہانِ زمانہ کی جھولی

محتاج کی جب یہ حالت ہے مختار کا عالم کیا ہو گا

ہے نام میں ان کے اتنا اثر جی اٹھتے ہیں مُردے بھی سُن کر

وہ حال اگر خود ہی پوچھیں بیمار کا عالم کیا ہو گا

جب ان کے غلاموں کے در پر جھکتے ہیں سلاطینِ عالم

پھر کوئی بتائے آقا کے دربار کا عالم کیا ہو گا

جب سُن کے صحابہ کی باتیں کفّار مسلماں ہوتے ہیں

پھر دونوں جہاں کے سرور کی گفتار کا عالم کیا ہو گا

طیبہ سے ہوا جب آتی ہے بیکلؔ کو سکوں مل جاتا ہے

اِس پار کا جب یہ عالم ہے اُس پار کا عالم کیا ہو گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]