سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا

کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا

بند آنکھو وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا

اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا

عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا

جب بھی تم چاہو جدا ہونا جدا ہو جانا

تیری جانب ہے بتدریج ترقی میری

میرے ہونے کی ہے معراج ترا ہو جانا

تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں

باغ میں سوکھے درختوں کا ہرا ہو جانا

اک نشانی ہے کسی شہر کی بربادی کی

ناروا بات کا یک لخت روا ہو جانا

تنگ آ جاؤں محبت سے تو گاہے گاہے

اچھا لگتا ہے مجھے تیرا خفا ہو جانا

سی دئیے جائیں مرے ہونٹ تو اے جان غزل

ایسا کرنا مری آنکھوں سے ادا ہو جانا

بے نیازی بھی وہی اور تعلق بھی وہی

تمہیں آتا ہے محبت میں خدا ہو جانا

اژدہا بن کے رگ و پے کو جکڑ لیتا ہے

اتنا آسان نہیں غم سے رہا ہو جانا

اچھے اچھوں پہ برے دن ہیں لہٰذا فارسؔ

اچھے ہونے سے تو اچھا ہے برا ہو جانا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]