سر میں ہے خاک پاؤں میں زنجیر، ہم فقیر

بیٹھے ہیں بن کے عشق کی تصویر، ہم فقیر

وہ قیس تھا جو دشت کو بھاگا تھا ناصحو

ہر روز تم سے ہوں گے بغل گیر ، ہم فقیر

اپنے ہی خون میں رہی لت پت ہماری لاش

اپنے ہی خواب کی بنے تعبیر ، ہم فقیر

دریا کے ہر بھنور میں تری آنکھ کا غرور

صحرا کی ریت پر لکھی تحریر ، ہم فقیر

تجھ تمکنت مزاج کو کیا علم قاتلا

پاتے ہیں زندگی تہہ ِ شمشیر ، ہم فقیر

ہر شام گھر پلٹتے ہیں بے حال اور نڈھال

کشکول میں رکھے ہوئے جاگیر ، ہم فقیر

حیدر ہیں اور وظیفے سخن میں بہت مگر

کرتے ہیں ورد ہر گھڑی یا میرؔ ، ہم فقیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]