سر پہ رکھے گا مرے دستِ اماں کتنی دیر

باد بے درد میں تنکوں کا مکاں کتنی دیر

پوچھتی ہیں مری اقدار مرے بچوں سے

ساتھ رکھو گے ہمیں اور میاں کتنی دیر

بجھ گئی آگ تمناؤں کی جلتے جلتے

کچھ دھواں باقی ہے لیکن یہ دھواں کتنی دیر

رزق برحق ہے مگر یہ کسے معلوم کہ اب

رزق لکھا ہے مقدر میں کہاں کتنی دیر

جا چکے پتے، ہوائیں بھی چلی جائیں گی

بے سبب ٹھہرے گی پیڑوں پہ خزاں کتنی دیر

ریگ زاروں میں کسے ڈھونڈنے نکلے ہو ظہیرؔ

ریت پر رہتے ہیں قدموں کے نشاں کتنی دیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]