سلسبیلِ نور

فلک سے تا فرشِ خاک اِک سلسبیلِ نورِ ازل ہے جاری

مسرتوں کے چمن کھلے ہیں کرم پہ مائل ہے ذاتِ باری

ہے غرب تا شرق شورِ صلِّ علیٰ‘ کہ رحمت برس رہی ہے

عروسِ نو کی مثال گیتی تمام خوشبو میں بس رہی ہے

بساطِ عالم کا چپہ چپہ زُجاجِ انوار ہو رہا ہے!

کہ نورِ رَبُّ العُلیٰ کا ہر شئے سے صاف اظہار ہو رہا ہے

درود پڑھتا ہے ذرّہ ذرّہ کہ عیدِ میلادِ شاہِ دیں ہے

پکارتا ہے ہر ایک گوشہ کہ رحمتِ ذوالمنن یہیں ہے

وہ آنے والا ہے جس کے دم سے جہاں کی کُل تیرگی چھٹے گی

کہ جس کی آمد سے نسلِ آدم کو اِک نئی آگہی ملے گی

وہ احمدِ مجتبیٰ جو دنیا کو دینِ حق کا پیام دیں گے

وہ جن کے آگے تمام لات و منات و عزیٰ ہبل جھکیں گے

جو اُن کو مانے گا دین و دنیا میں صاحبِ اقتدار ہو گا

چلے گا نقشِ قدم پہ جو اُن کے، بس وہی ذی وقار ہو گا

تمام اَدیانِ کہنہ منسوخ کرنے آتا ہے ایک ہادی

کہ جس کے نعرے سے گونج اٹھیں گے بلاد و قریہ، پہاڑ وادی

پھر اس زمانے نے یہ بھی دیکھا وہ مظہرِ شانِ لم یزالی

زمیں پہ آیا اور آ کے یکسر جہاں کی حالت بدل ہی ڈالی

ملا دیا رَبّ سے اس کے بندوں کو سیدالمرسلیں نے آ کر

ہر ایک جانب کیا اُجالا چراغ توحید کے جلا کر

تمام اَصنامِ خود تراشیدہ ایک اُمِّیْ نے توڑ ڈالے

اُسی نے بیت الحرام سے پھر بنے ہوئے سب خدا نکالے

وہ جس نے آ کر جہاں سے تفریقِ رنگ و نسل و نسب مٹا دی

صلاح و امن اور آشتی کی بشر کو اِک راہِ نو دکھا دی

سلام اُن پر کہ جن سے انساں کو درسِ انسانیت ملا ہے

سلام اُن پر کہ جن کی آمد سے آدمی کا شرف بڑھا ہے

سلام لاکھوں سلام اُن پر کہ جن کی اَزواج سب مطہر

سلام لاکھوں سلام اُن پر ہیں آل میں جن کی ماہ و اختر

سلام لاکھوں سلام جتنی ہوئی ہیں اولادیں شاہِ دیں کی

کہ جن میں زینبؓ بھی ہیں، رقیہؓ بھی، اُمِّ کلثومؓ و فاطمہؓ بھی

نرینہ اولادِ سیدالمرسلیں پہ بھی ہو سلام بے حد

سلام لاکھوں سلام ان پر بنے تھے بچپن میں جن کے مرقد

سلام لاکھوں سلام اُن پر کہ جن کے اصحابؓ ہیں ستارے

حیات ہے ظلمتوں کا صحرا تو وہ ہیں سب نور کے منارے

سلام لاکھوں سلام اُن پر کہ جن کی اُمت میں اولیاء ہیں

سلام لاکھوں سلام اُن پر کہ جن کے دامن میں اصفیاء ہیں

سلام اُن پر کہ جن کے صدقے قلوب و اَذہان میں چمک ہے

سلام ان پر طفیل جن کے دلوں میں ایمان کی لپک ہے

بفیضِ ختم الرسل مجھے سلسبیل نوریں سے واسطہ ہے

عزیزؔ احسن انہی کے صدقے مجھے ثنا کا ہُنر ملا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]