سناں پہ قاریٔ قرآن سر حسین کا ہے

جو بوسہ گاہِ ملائک ہے در حسین کا ہے

لہو میں رقص کناں ہوگی بوئے مشکِ ختن

درونِ قلب اگر مستقر حسین کا ہے

چلے ہیں دین کی خاطر لٹانے گھر اپنا

اگرچہ سخت کٹھن یہ سفر حسین کا ہے

زمیں ہے آلِ محمد کی صحنِ جنت میں

جو سر پہ سایہ فگن ہے، شجر حسین کا ہے

ملی ہے گود میں جس کو شہادتِ عظمیٰ

وہ شیر خوار بھی لختِ جگر حسین کا ہے

حیاتِ جاوداں پائی کٹا کے سر اپنا

قسم خدا کی یہ کارِ ہنر حسین کا ہے

یہی بنائے گا اشفاق سارے کام ترے

گھرانہ سارا بڑا با اثر حسین کا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]