سنگ آئے کہ کوئی پھول، اٹھا کر رکھئے

جو ملے نام پر اُس کے وہ سجا کر رکھئے

سجدۂ عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی

سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے

دل پہ اُترا ہوا اک حرفِ محبت نہ مٹے

اسمِ اعظم ہے یہ تعویذ بنا کر رکھئے

گر کے خاشاک ہوا جس میں انا کا شیشم

ہے وہی خاکِ شفا اُس کو اٹھا کر رکھئے

ہم یوں کھلتے نہیں دوچار ملاقاتوں میں

ایک دو روز ہمیں پاس بلا کر رکھئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]