سنہری جالی کی ضو فشانی کو مانتی ہیں مطاف آنکھیں

اسی کا اشکوں سے با وضو ہو کے کر رہی ہیں طواف آنکھیں

لگا کے امید در گزر کی ندامتوں سے جھکا کے پلکیں

درِ رسالت پہ کر رہی ہیں گناہ کا اعتراف آنکھیں

یہ عکسِ تاباں یہ روئے اطہر کوئی نہ دیکھے سوائے اِن کے

ترے تصور پہ ڈال دیتی ہیں آنسوؤں کا لحاف آنکھیں

میں اپنی آنکھوں کو دائمی روشنی کا رستہ دکھا رہا ہوں

رہیں گی روشن قدومِ سرور میں گر کریں اعتکاف آنکھیں

کبھی مرے خواب کے دریچے میں روشنی بن کے مسکرائے

وہ نور چہرہ جو تیرگی میں بھی دیکھ لیتی ہیں صاف آنکھیں

دیارِ اطہر کے ذرے ذرے کو یہ جو جھک جھک کے چومتی ہیں

تلاش کرتی ہیں گردِ راہِ محمدی کا غلاف آنکھیں

بسا ہے اشفاق جب نظر میں حسین گنبد کا سبز منظر

تو کیوں نہ کرتیں دھنک کے رنگوں سے دائمی انحراف آنکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]