سوچتا ہوں جانے کیوں؟

بے قرار موسم میں

کچھ اداس لمحوں میں

زندگی کے ہاتھوں میں

بے خودی کے گھیرے میں

ہر گلی کی نکّر پر

ہر ندی کنارے پر

میری آنکھ سے بہتے

آنسوؤں کے دھارے پر

تیرے ساتھ رہنے کا

شہر بھر کے چہروں کی

سب حسین آنکھوں میں

جھانک کر تری خاطر

تجھ کو تکتے رہنے کا

خوشبوؤں کے دامن میں

ہر کلی کی آہٹ پر

تجھ سے بات کرنے کا

ان اداس سڑکوں پر

رات کے اندھیروں میں

صرف تیرے بارے میں

سوچتے ہی رہنے کا

سوچتا ہوں جانے کیوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]