سوچتا ہوں صیدِ مرگ ِ ناگہاں ہو جاؤں گا

دل کے باغیچے سے گُلہائے جنوں چُننے سے قبل

اور مٹی اوڑھ کر اک قبر میں سو جاوٗں گا

حیرتوں والے صحیفوں کے سُننے سے قبل

جب ستاروں سے دمکتی شب کے خدّو خال پر

دیکھتا ہوں روشنی اِک غیر فانی عشق کی

سوچ کر افسردہ ہوتا ہوں میں اپنے حال پر

مجھ کو مُہلت ہی نہیں اِس آسمانی عشق کی

سوچتا ہوں ، اے میری محبوبۂ یک دو نَفس

تیرے حُسن ِ بے کراں کو کب تلک تَک پاؤں گا

جب اجل آ کر کہے گی : شاعرِ نادان! بس

تب میں ہستی ترک کر دوں گا ، فنا ہو جاؤں گا

آنکھ مٹ جائے گی ، سارے خواب گُم ہو جائیں گے

عشق اور شُہرت عدم آباد میں کھو جائیں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]