شاہا ! سُخن کو نکہتِ کوئے جناں میں رکھ

شاہا! سُخن کو نکہتِ کوئے جناں میں رکھ

اپنے کرم کے ہالۂ عنبر فشاں میں رکھ

ویسے تو حُسن زار ہیں حیرت گہِ طلب

لیکن ہمیں محلۂ قُدسی نشاں میں رکھ

ڈھلتی شفق میں کھِلتے ہیں کچھ خوابِ انگبیں

صبحِ عیاں کو لذتِ شامِ نہاں میں رکھ

صدیوں سے شہر شہر کی ہجرت سے تھک گیا

اب مجھ کو قربِ سنگِ درِ آستاں میں رکھ

تیری ثنا کے شوق میں ہی عمر بھر رہوں

یہ نسبتِ نیاز مرے قلب و جاں میں رکھ

مجھ کو بھی اپنے مطلعِ طلعت کی بھیک دے

مجھ کو بھی اپنی جلوہ گہِ بیکراں میں رکھ

حاشا، بکھر ہی جائے نہ یہ حرفِ نارسا

اِس کو ثنا کے دامنِ حفظ و اماں میں رکھ

بے کیف موسموں کو عطا کر لطافتیں

بے نام حدتوں کا سماں سائباں میں رکھ

مَیں شعر باندھتا ہُوں، اسے اوجِ نعت دے

مَیں حرف جوڑتا ہوں انہیں کہکشاں میں رکھ

خاکِ طلب کو فیض گہِ آستاں مِلے

خارِ خزاں کو نقش گہِ گُلستاں میں رکھ

مقصودؔ اُس حسیب سے بخشش کے واسطے

آقا کا اسمِ نور سدا درمیاں میں رکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]