شاہِ کونین کا سنگِ در چھو لیا

گویا خاکِ عجم نے قمر چھو لیا

میرے لفظوں کو رتبہ ملا نعت کا

میرے خامہ نے اوجِ ہنر چھو لیا

جب نظر نے چھوا گنبدِ سبز کو

اک اماوس نے روئے سحر چھو لیا

جس کی تنصیب دستِ کرم سے ہوئی

مجھ گنہگار نے وہ حجر چھو لیا

دل مدینے کی خاطر مچلنے لگا

زائروں کا جو رختِ سفر چھو لیا

جس پہ رہتے ہیں حاضر ہزاروں ملک

میری پلکوں نے وہ مستقر چھو لیا

آپ کا واسطہ دے کے مانگی گئیں

سب دعاؤں نے بابِ اثر چھو لیا

لفظ نے چھو لیے مدحتوں کے قدم

خشک ٹہنی نے شیریں ثمر چھو لیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]