شاہِ کونین کی خوشبو سے فضا کیف میں ہے

چھو کے نعلینِ کرم غارِ حرا کیف میں ہے

جب سے مانگا ہے شہِ کون و مکاں کا جلوہ

لفظ ہیں رقص کناں حرفِ دعا کیف میں ہے

ایسے دربار میں پھیلایا ہے دامانِ طلب

التجا وجد میں ہے اور صدا کیف میں ہے

کر کے آئی ہے ابھی کوئے معطر کا طواف

کشتِ نوخیز میں وارفتہ صبا کیف میں ہے

شافعِ حشر کی اک چشمِ عنایت کے سبب

فردِ اعمال کی ہر ایک خطا کیف میں ہے

یاد آئی ہے مدینے کی بلاوے کی طرح

طاقِ امید پہ اک لرزاں دیا کیف میں ہے

نعت بھر دیتی ہے اشفاق رگوں میں امرت

جس کسی کو بھی ملا رزقِ ثنا ،کیف میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]