شب فراق کا منظر نہیں بدلنے دیا

کوئی چراغ جلایا نہ میں نے جلنے دیا

ہم اس کا رد عمل جانتے تھے پہلے سے

سو ہم نے گیند زیادہ نہیں اچھلنے دیا

دلیل اس کے دریچے کی پیش کی میں نے

کسی کو پتلی گلی سے نہیں نکلنے دیا

پھر اس کے بعد گلے سے لگا لیا میں نے

خلاف اپنے اسے پہلے زہر اگلنے دیا

یہ لوگ جا کے کٹی بوگیوں میں بیٹھ گئے

سمے کو ریل کی پٹڑی کے ساتھ چلنے دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]