شب کی کتاب میں کبھی تازہ برگ گلاب تھا

خطِ زر فشاں سے لکھا ہوا مری زندگی کا نصاب تھا

وہ مثالِ ابر تھا آسرا کڑے موسموں کے دیار میں

وہ تمازتوں کے سوال پر مری تشنگی کا جواب تھا

جو بغاوتوں کے جواز میں مری سرکشی کا سبب رہا

وہ امین تھا مرے خواب کا، وہ مرا غرور شباب تھا

مرے کسب زارِ کمال میں مری جستجو کا ہدف بنا

وہ محبتوں کی معاش میں مری اُجرتوں کا حساب تھا

وہ رہا شریکِ سکوتِ شب مری حسرتوں میں بجھا ہوا

کبھی لب کشا میں ہوا اگر تو وہ میری روحِ خطاب تھا

وہ علامتوں کی بہار تھا مری شاعری کی زمین میں

وہ فلک تھا سر پہ خیال کا، وہ سخن کا لبِ لباب تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]