شرمندہ سا لرزیدہ سا میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

لے کر اک بوجھ گناہوں کا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

گر تو نہ بخشے گا مجھ کو، پھر کیسے بخشش پاؤں گا

کر کے اُمیدیں وابستہ، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

اِک ٹوٹی ہوئی سی ڈالی ہوں، میں تیرے کرم کا سوالی ہوں

دل کو تھامے گرتا پڑتا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

پیشانی جُھکی تیرے آگے اور سامنے کعبے کا جلوہ

تو مجھ کو یقینا بخشے گا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

پاؤں میں گناہوں کی بیڑی، ہاتھوں میں لگی ہیں ہتھکڑیاں

حاضر ہے مجرم اے مولا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

کھوئی ہے اُمّت کھیلوں میں، مسلم ہے مست جھمیلوں میں

کچھ حال سنانے اُمّت کا، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

مکہ اور مدینہ دونوں حرم، ہیں دونوں اُجاگرؔ ابرِ کرم

دونوں ہیں ہدایت کا رستہ، میں صحنِ حرم میں آیا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]