شعاعِ نورِ حرم ہے نئے چراغوں میں

خدا کا عکسِ کرم ہے نئے چراغوں میں

یہ سلسلہ ہے وہی لو سے لو جلانے کا

بجھے ہوؤں کا جنم ہے نئے چراغوں میں

کمی جو اِن کے اُجالے میں ہے، ہماری ہے

لہو ہمارا بہم ہے نئے چراغوں میں

بجائے طاقِ شبستاں جلے ہیں رستوں پر

اندھیری راہ کا غم ہے نئے چراغوں میں

مآلِ ہستیء یک شب سے ہو گئے واقف

ہوا کا خوف عدم ہے نئے چراغوں میں

لکھے ہیں شب زدہ آنکھوں میں جتنے اندیشے

جواب اُن کا رقم ہے نئے چراغوں میں

طلوع صبح منوّر کا ایک زندہ یقین

زوالِ شب کی قسم! ہے نئے چراغوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]