شکوہِ ترکِ آرزو نہ گلہ

ان کوئی بات ہی نہیں باقی

بات باقی بھی ہو کیا کہیے

جب یہاں کوئی بھی نہیں باقی

محفلِ شب میں خاک اڑتی ہے

چاند میں روشنی نہیں باقی

شعر لفظوں کا جھمگٹا ٹھہرے

فکر میں دل کشی نہیں باقی

جس قدر فاصلے ابھر آئے

اس قدر زندگی نہیں باقی

اب جنوں مصلحت پرست ہوا

عشق کی سادگی نہیں باقی

ایک افسوس ہے کہ باقی ہے

اور صورت کوئی نہیں باقی

کم اگر ہے تو وقت ہے ناصر

اور کوئی کمی نہیں باقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]