شکوہِ مرگِ آرزوُ بھی نہیں

کوئی سامع نہیں ہے توُ بھی نہیں

اب مخاطب کوئی نہیں میرا

اور اب کوئی روبروُ بھی نہیں

میں زمیں بوس ہی نہ ہو جاؤں

میری بوسیدگی کو چھوُ بھی نہیں

بیج دفنا رہے ہو خوابوں کے

میری قدرت میں جب نموُ بھی نہیں

گمشدہ خود کو ڈھونڈتا ہوں میں

اب تمہاری تو جستجوُ بھی نہیں

دل ہی اب چاک سے عبارت ہے

اس لیے حاجتِ رفوُ بھی نہیں

کیا شراروں کو روئیے ناصر

اب رگِ جان میں لہوُ بھی نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]