شہرطیبہ کے دروبام سے باندھے ہوئے رکھ

شہر طیبہ کے در و بام سے باندھے ہوئے رکھ

میں ہوں جیسام جھے اس نام سے باندھے ہوئے رکھ

میں بھی ہوں اے مرے آقا ترا زندانی عشق

اپنے قیدی کو اسی دام سے باندھے ہوئے رکھ

مری آنکھوں سے برستے ہوئے ان اشکوں کو

دل میں برپا کسی کہرام سے باندھے ہوئے رکھ

یہ چمکتا ہوا سورج مری خواہش میں نہیں

تو مجھے اپنی کسی شام سے باندھے ہوئے رکھ

میں نہیں چاہتا آسودہ دنیا ہونا

بس مجھے راحت انجام سے باندھے ہوئے رکھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]