شہرِ نبی کو جب بھی کوئی جانے لگتا ہے

میں دل کو، اور دل مجھ کو سمجھانے لگتا ہے

جب بھی دیکھتا ہوں میں اپنی عمرِ گریزاں کو

روضۂ اطہر کا منظر یاد آنے لگتا ہے

دستِ سخا کوئی ایسا نہیں جو اپنے سائل پر

عرضِ طلب سے قبل کرم فرمانے لگتا ہے

نعت کا شاعر ذکرِ نبی کی ٹھنڈی چھاؤں میں

غمِ زمانہ سے تھک کر سستانے لگتا ہے

مایوسی کے دَور کی اِن بے چین فضاؤں میں

ان کا تصور لمحوں کو مہکانے لگتا ہے

اسمِ محمد کی خوشبو لَو دینے لگتی ہے

غنچۂ دل میرا جونہی مُرجھانے لگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]