شہر جاتے ہیں جو ماحول بدل لیتے ہیں

وہ محبت کے سبھی قول بدل لیتے ہیں

وقت آتا ہے تو احساس کا در کھلتا ہے

لوگ سانپوں کی طرح خول بدل لیتے ہیں

آلہ ء قتل پہ ہونگے ترے ہاتھوں کے نشاں

چل مرے دوست یہ پستول بدل لیتے ہیں

چیخ پڑتے ہیں کہ کم ہو یہ اذیت ناکی

وقت کیسا بھی ہو پرہول بدل لیتے ہیں

مطلبی ان کو بھی تاریخ میں لکھا جائے

یہ پرندے بھی اگر غول بدل لیتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]