شہِ بطحا کی یہ چوکھٹ ہے، پشیماں کیوں ہے

شہِ بطحا کی یہ چوکھٹ ہے ، پشیماں کیوں ہے

مانگنے والے تو کچھ مانگ پریشاں کیوں ہے

عشقِ سرکار ہی جب ٹَھہرا دوا خانہِ ہست

خود سمجھ لو کہ مرا دل، مرا درماں کیوں ہے

چشمِ اسباب تجھے کھینچتی ہے اپنی طرف

دیکھ اے دوست کہ دنیا میں چراغاں کیوں ہے

ربطِ تخلیق میں تفریق کا مقصد پہچان

خاک کیا چیز ہے اور حضرتِ انساں کیوں ہے

آپ کے پاؤں سوئے عرشِ عظیم اٹھے تھے

لوگ حیراں ہیں فضا اتنی فروزاں کیوں ہے

شکر ہے ، نعمتِ توفیق سے ملتا ہے جواب

میری ، اصناف میں اک نعت ہی پہچاں کیوں ہے

کس کے پڑھتے ہیں قصیدے یہ حسینانِ جہاں

باغ میں دیکھئے وہ مجمعِ خوباں کیوں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]