شیرازہ بندِ دفترِ امکاں ہے شانِ حق

سرچشمۂ حیات ہے فیضِ روانِ حق

بارانِ لطف ہے کرمِ جاودانِ حق

ذرے زبانِ حال سے ہیں تر زبانِ حق

رنگِ نوائے راز ہے ہستی کے ساز میں

در پردہ بس رہی ہے حقیقت مجاز میں

تابش فزائے ماہِ نظر تاب ہے وہی

ضو بخشِ برقِ غیرتِ سیماب ہے وہی

نزہت دِہِ رخِ گلِ شاداب ہے وہی

زینت فروزِ عالمِ اسباب ہے وہی

حق کی ضیا سے نور کا مطلع جہان ہے

ذروں میں آفتابِ درخشاں کی شان ہے

روئے مجاز عکس ہے حق کی صفات کا

پرتو اس آئینے میں ہے انوارِ ذات کا

حق اصلِ کُل ہے سلسلۂ کائنات کا

اعجازِ حق ہے راز طلسمِ حیات کا

ظلمت سرائے دہر میں ہے حق کی روشنی

جلوہ فشاں ہے قادرِ مطلق کی روشنی

زیبِ ریاضِ دہر اگر فیضِ حق نہ ہو

رنگیں کتابِ خندۂ گل کا ورق نہ ہو

نیرنگِ دل فریب بہارِ شفق نہ ہو

مہرِ مبیں سے چرخ کا روشن طبق نہ ہو

ایوانِ شش جہت میں برستا جو نور ہے

حق تو یہ ہے یہ جلوۂ حق کا ظہور ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]