صبح آتا ہوں یہاں اور شام ہو جانے کے بعد

لوٹ جاتا ہوں میں گھر ناکام ہو جانے کے بعد

ڈھانپ دیتے ہیں ہوس کو عشق کی پوشاک میں

لوگ سارے شہر میں بدنام ہو جانے کے بعد

اک ہجومِ یاد ہوگا اِن گلی کوچوں کے بیچ

دیکھ شہرِ دل کی رونق شام ہو جانے کے بعد

یاد کرنے کے سوا اب کر بھی کیا سکتے ہیں ہم

بھول جانے میں تجھے ناکام ہو جانے کے بعد

خود جسے محنت مشقت سے بناتا ہوں جمال

چھوڑ دیتا ہوں وہ رستہ عام ہو جانے کے بعد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]