صدائیں آ رہی ہیں کچھ گُلوئے نیم بسمل سے

کوئی سُن کر یہ افسانہ کہیں کہہ دے نہ قاتل سے

کبھی اک اشکِ خوں گشتہ ، کبھی اک آہِ افسردہ

نکل آئے ہیں دل کے راز کس کس رنگ میں دل سے

نظامِ عالمِ الفت کہیں برہم نہ ہو جائے

ذرا کچھ سوچ کر ہم کو اٹھانا اپنی محفل سے

مآلِ لذتِ آزار ہیں بربادیاں میری

نہ کچھ تقدیر سے شکوہ ، شکایت ہے نہ قاتل سے

سفر میں دوستو یادِ روش بھی اک قیامت ہے

کہ اکثر گھر پلٹ آتا ہوں میں جا جا کے منزل سے

کوئی ناکامِ حسرت ڈوبتا ہے وائے ناکامی

لپٹ کر رو رہی ہے بے کسی آغوشِ ساحل سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]