صدقے میں سادگی پہ تری خوش گمانِ دل

دل سے لگا لیے ہیں سبھی قاتلانِ دل

جلوہ فروزِ مسندِ دل ہے وہ آج بھی

ویران کرگیا جو کبھی کا جہانِ دل

کل تک سکندری تھی فقیری ہے آج کل

راضٰ ہر ایک حال میں ہیں بندگانِ دل

دے درد بھی تو وہ کہ جسے لادوا کہیں

یعنی کہ کر سلوک بھی شایانِ شانِ دل

ہے دردناک بھی تو یہ منظر کمال بھی

اپنے مکیں کو ڈھونڈ رہا ہے مکانِ دل

پردے سماعتوں کے نہ پھٹ جائیں دیکھنا

اشعار بولنے پہ جو آئیں زبانِ دل

وہ کام دل کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کبھی

تو نے کر دیا ہے مرے بد گمانِ دل

اپنی شکست ساتھ لیے جا رہا ہوں میں

میں سخت شرمسار ہوں شیشہ گرانِ دل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]