صد چاک ہی دامان و گریبان بھلے ہیں

پر جب بھی چلے چال قیامت کی چلے ہیں

ہم خاک میں پیوست ہوئے تھے کہ اُگے تھے

اک عمر ہوئی ہے کہ نہ پھولے نہ پھلے ہیں

آفاقِ توقع پہ اُبھرتے تو رہے ہم

ہر شام بھلے دشتِ ندامت میں ڈھلے ہیں

ممکن نہ ہوا شب کی سیاہی کا ازالہ

ہم یوں تو کئی بار چراغوں سا جلے ہیں

ناخن سے کریدیں گے زمیں اور کہاں تک

کیا واقعی اہرام اسی خاک تلے ہیں

اس طور تاسف میں نہ گہنائیے خود کو

ہم خانماں برباد حوادث میں پلے ہیں

اب وقت کی تلوار سے کیا چیز کٹی ہے

لمحات ہیں ، رستے ہیں کہ اس بار گلے ہیں

اک وحشتِ کمبخت نے لنگر نہیں ڈالے

طوفان جو اُٹھے تھے وہ جاں لے کے ٹلے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]