صراحی سر نگوں ، مینا تہی اور جام خالی ہے

مگر ہم تائبوں نے نیّتوں میں مے چھپالی ہے

کبھی اشکوں کی صورت میں کبھی آہوں کی صورت میں

نکلنے کی تمنّا نے یہی صورت نکالی ہے

یہی ڈر ہے کہیں گلچیں نہ کہہ دیں یہ جہاں والے

کبھی صحنِ چمن سے پھول کی پتّی اٹھا لی ہے

ابھر آئی وہاں محراب تیرے آستانے کی

جہاں فرطِ محبّت سے جبیں ہم نے جھکا لی ہے

کہیں ایسا نہ ہو بھولے سے جنّت میں چلا جاؤں

گلی فردوس کی تیری گلی کے ساتھ والی ہے

ضیاؔ اس خواب کی تعبیر بھی اک خواب ہے اپنا

پسینہ آ گیا جب اس کے دامن کی ہوا لی ہے​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]