ضیائے مہر و مہ و کہکشاں جہاں سے ہے

خوشا نصیب کہ نسبت مجھے وہاں سے ہے

خدا نے خود انھیں اپنا شریکِ اسم کیا

رحیم کہنا انھیں شرک پھر کہاں سے ہے ؟

حضور خود جو بہ نفسِ نفیس ہیں موجود

مدینہ اس لیے ذی شان کل جہاں سے ہے

جہاں پہ سر کو جھکاتے ہیں قدسیانِ فلک

مری بھی نسبت اُسی کوئے مہرباں سے ہے

گدائے کوچۂِ سلطانِ دو جہاں ہوں میں

زمین پر ہوں مگر ربط آسماں سے ہے

غلامِ شاہِ مدینہ یہ بات جانتے ہیں

وہیں سے اٹھّے گا ، نسبت جسے جہاں سے ہے

عطا ہوا ہے قرینہ جو نعت گوئی کا

مرا کمالِ سخن بس اسی بیاں سے ہے

رسولِ پاک سے نسبت ہے شہرِ طیبہ کو

زمیں کا خطّہ ہے ، برتر پہ آسماں سے ہے

گناہگاروں کی بخشش ہو یا صراط کا پُل

نجاتِ دائمی دانش بس اُن کی "ہاں” سے ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]