طیورِ فکر جو ان کے خیال تک پہنچے

ہمارے رنج و الم عرضِ حال تک پہنچے

سجائے ہجرِ مسلسل نے نعت کے مصرعے

براہِ مدحتِ سرور وصال تک پہنچے

مرے کریم نے حاجت روائی پہلے کی

یہ ہونٹ بعد میں حرفِ سوال تک پہنچے

حسِین ہو گی ستاروں کی کہکشاں لیکن

نہیں مجال کہ گردِ نعال تک پہنچے

ہمارا فن تو فقط نا تمام خواہش تھا

حروف نعت ہوئے تب کمال تک پہنچے

خجیل ہو کے قمر بادلوں میں چھپ جائے

نگاہ اس کی اگر ان کے گال تک پہنچے

ستارے بن کے بلندی پہ جگمگانے لگے

جو خوش نصیب شہِ خوش خصال تک پہنچے

مدینے پہنچے تو اشفاق میرے دل نے کہا

ہمارے زخمِ کہن اندمال تک پہنچے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]