عالم کو حقیقت کی ہوا تک نہیں آئی
محبوب سے پہلے تو ندا تک نہیں آئی
محبوب کے قدموں میں لگی آنکھ تو ایسی
آواز کبھی، بانگ درا تک نہیں آئی
فیضانِ نبی سے یہ سلیقہ ہے وگرنہ
عالم کو تو جینے کی ادا تک نہیں آئی
سوچا تھا کہ جائیں گے تو مانگیں گے بہت کچھ
روضے پہ جو آئے تو دعا تک نہیں آئی
سجدے میں سلیقہ بھی تو گل فیض نبی ہے
پہلے تو ہمیں ایسی ادا تک نہیں آئی