عالم کو حقیقت کی ہوا تک نہیں آئی

محبوب سے پہلے تو ندا تک نہیں آئی

محبوب کے قدموں میں لگی آنکھ تو ایسی

آواز کبھی، بانگ درا تک نہیں آئی

فیضانِ نبی سے یہ سلیقہ ہے وگرنہ

عالم کو تو جینے کی ادا تک نہیں آئی

سوچا تھا کہ جائیں گے تو مانگیں گے بہت کچھ

روضے پہ جو آئے تو دعا تک نہیں آئی

سجدے میں سلیقہ بھی تو گل فیض نبی ہے

پہلے تو ہمیں ایسی ادا تک نہیں آئی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]