عجیب قاعدے ہجرت! تری کتاب میں ہیں

خسارے دونوں طرف کے مرے حساب میں ہیں

یہ طے ہوا ہے کہ اب اُس کی ملکیت ہوں گے

وہ سب علاقے جو میری حدودِ خواب میں ہیں

نہ تشنگی میں کمی ہے، نہ پانیوں کی کمی

عذاب میں ہیں کہ پیاسے کسی سراب میں ہیں

تجھے ہی رکھتے ہیں قلب و نظر کے آگے امام

جہاں بھی ہوں ترے بندے تری جناب میں ہیں

اُبھر کے بحر کشاکش سے دیکھتے ہیں تجھے

ذرا سی دیر کو ہم گنبدِ حباب میں ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]