عشق

پیکرِ خاک میں تاثیرِ شرر دیتا ہے

آتشِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے

اک ذرا گردشِ ایّام میں کرتا ہے اسیر

دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے

پہلے رکھتا ہے یہ آنکھوں میں شب تیرہ و تار

دستِ امکان میں پھر شمس و قمر دیتا ہے

دل پہ کرتا ہے یہ تصویر جمالِ ہستی

پھر مٹا کر اُسے اک رنگِ دگر دیتا ہے

جذب صادق ہو تو کرتا ہے مقدر منزل

کارِ بے نام کو عنوانِ ظفر دیتا ہے

دور جائیں تو بلاتا ہے یہ اپنی جانب

لوٹ کر آئیں تو پھر اذنِ سفر دیتا ہے

اُس میں قید در و دیوار نہیں رکھتا عشق

اپنے آشفتہ مزاجوں کو جو گھر دیتا ہے

یہ کرشمہ ہے عجب عشق تضاد آور کا

پھول سے جسم کو پتھر کا جگر دیتا ہے

لمس پارس تو نہیں بنتا، مگر یہ سچ ہے

ڈھونڈنے والوں کو مٹی میں گہر دیتا ہے

تابِ گویائی چرا لیتا ہے ان ہونٹوں کی

عشقِ پرکار جب آنکھوں کو نظر دیتا ہے

قلبِ فنکار کو دیتا ہے یہ روحِ احساس

پھر اسے جرأتِ اظہار ہنر دیتا ہے

آؤ چلتے ہیں ذرا بزم سخن میں اسکی

لوگ کہتے ہیں وہ لفظوں کو اثر دیتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]