عشق سے مجھ کو انحراف نہ تھا

خون لیکن مرا معاف نہ تھا

ہم ہنسے تھے کہ لفظ رونے لگے

ضبط کا شعر پر غلاف نہ تھا

اس نے دیوار پر لکھا تھا مجھے

کوئی بھی لفظ صاف صاف نہ تھا

دائرے کا تجھے رکھا مرکز

یہ مرا عشق تھا ، طواف نہ تھا

کہہ دیا اُس نے حالِ دل اک دن

ویسے یہ کوئی انکشاف نہ تھا

وقت ِرخصت کا بھیگتا منظر

کیا محبت کا اعتراف نہ تھا؟

ہم نے رکھی نہیں لگی لپٹی

موڈ اُس کا بھی آج آف نہ تھا

ویسے دنیا سے بن نہیں رہی تھی

وہ مرے غم میں اعتکاف نہ تھا

دل بھی میرا اداس تھا قیصر

اور سبب عین شین قاف نہ تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]