عطائے ساقی ِفطرت ہے کیا حکیمانہ

ہر اک کو بخششِ مے ہے بقدرِ پیمانہ

اسی خمار کی مے ہے، وہی ہے پیمانہ

کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ

امنگ و آرزو و شوق و حسرت و ارماں

نہ ہوں جو دل میں تو دل کیا ہے ایک ویرانہ

سکوں ہے دل کو مرے سجدہ ہائے باطل پر

گراں ہے مجھ پہ مگر اف نمازِ دو گانہ

اب آ، اے پردہ نشیں کیوں تجھے تامل ہے

درونِ سینہ ہے دل اور دلِ نہاں خانہ

یہی کمالِ ترقی ہے دورِ حاضر کا

ہمہ خصائلِ انساں ہوئے بہیمانہ

جنوں منافیِ ہوش و حواس کب ہے نظرؔ

کمالِ ہوش بناتا ہے تجھ کو دیوانہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]