عطا کا دستِ یقیں تھا کمال کی جانب

ابھی گماں بھی نہیں تھا سوال کی جانب

سمیٹ لے گی وہ کربِ دروں کی پہنائی

نگاہِ ناز کہ ہے میرے حال کی جانب

ہمیں نوازا ہے تیرے کرم کی رفعت نے

سفر ہمارا نہ ہو گا زوال کی جانب

نئی نمود میں چمکے گا حُسن زادِ فلک

کہ تیرے ابرو ہُوئے ہیں ہِلال کی جانب

بلال دیکھتے ہوں گے جو تجھ کو وقتِ اذاں

کمال دیکھتا ہو گا بلال کی جانب

وہ جس کو تیری عطا نے کیا غنا پرور

بڑھائے ہاتھ وہ کس کے نوال کی جانب

ترے کرم نے بنایا اُنہیں نجومِ ہُدیٰ

بڑھے ہُوئے تھے قدم جو ضلال کی جانب

مِلے ہیں زیست کو جس سے نئے اصولِ شرَف

زمانے ہیں اُسی طلعت خصال کی جانب

جو سایہ چھُوتا نہیں ہے تمھارے پاؤں کو

خیال جائے گا کیسے مثال کی جانب

بہ فیضِ نعتِ نبی یہ کرم ہُوا مقصودؔ

سخن کا جام ہے تشنہ مقال کی جانب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]