عمرِ عزیز اپنی چلے ہم گزار کے

آئے نہیں پلٹ کے مگر دن بہار کے

چھاؤں میں زلفِ پر شکن و تابدار کے

بھولا ہوا ہوں سیکڑوں غم روزگار کے

دورِ خزاں میں نغمے ہیں فصلِ بہار کے

قربان جائیں گردشِ لیل و نہار کے

اس رات کی سحر ہی نہیں ہم سے پوچھ لو

مارے ہوئے ہیں ہم بھی شبِ انتظار کے

اے حسنِ ذوق صحنِ گلستاں سے پھول چُن

کانٹوں سے کیا غرض ہے یمین و یسار کے

احسان کیوں اٹھائیں کسی راہبر کے ہم

رہبر ہمیں نقوش کفِ پائے یار کے

سونے دو اے فرشتو لحد میں تو نیند بھر

لوٹا ہوں میں سفر سے کڑے دن گزار کے

دل کی فسردگی نہیں جاتی کسی طرح

قصے سناؤ لاکھ بھی باغ و بہار کے

شاہوں کو جس کی حلقہ بگوشی پہ فخر ہے

ادنیٰ غلام ہم بھی اسی تاجدار کے

ہوش و حواس قلب و نظر ؔ کیا عطا نہیں

احساں ہیں کس قدر مرے پروردگار کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]