عکسِ روئے مصطفے سے ایسی زیبائی ملی

کِھل اُٹھا رنگِ چمن ، پُھولوں کو رعنائی ملی

سبز گنبد کے مناظر دیکھتا رہتا ہوں میں

عشق میں چشمِ تصور کو وہ گیرائی ملی

جس طرف اُٹھیں نگاہیں محفلِ کونین میں

رحمۃ للعٰلمین کی جلوہ فرمائی ملی

ارضِ طیبہ میں میسر آگئی دو گز زمیں

یوں ہمارے منتشر اجزا کو یکجائی ملی

اُن کے قدموں میں ہیں تاج و تخت ہفت اقلیم کے

آپ کے ادنٰی غلاموں کو وہ دارائی ملی

بحرِ عشقِ مصطفے کا ماجرا کیا ہو بیاں

لطف آیا ڈوبنے کا جتنی گہرائی ملی

چادرِ زہراؓ کا سایہ ہے مرے سر پر نصیرؔ

فیضِ نسبت دیکھیے ، نسبت بھی زہرائی ملی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]